ایک بزرگ تھے۔ نکاح نہ کرتے تھے ایک مرتبہ سورہے تھے دفعتہ چونک پڑے اور کہنے لگے کہ جلدی کوئی لڑکی لاؤ! ایک مخلص مرید حاضر تھے ان کے ایک لڑکی کنواری تھی لا کر فورا حاضر کی۔ اسی وقت نکاح ہوا اللہ تعالیٰ نے ایک بچہ دیا اور وہ مرگیا۔ بی بی سے کہا کہ جو میرا مطلب تھا پورا ہو گیا اب تجھ کو اختیار ہے اگر تجھ کو دنیا کی خواہش ہے تو میں تجھ کو آزاد کردوں کسی سے نکاح کرلے اور اگر اللہ کی یاد میں اپنی عمر ختم کرنا ہو تو یہاں رہو۔ چونکہ وہ بی بی ان کے پاس رہ چکی تھی اور صحبت کا اثر اس کے اندر آ گیا تھا، اس نے کہا کہ میں تو اب کہیں نہیں جاتی۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی اللہ کی یاد میں رہے۔ ان سے بعض خواص نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا بات تھی؟ فرمایا کہ بات یھی کہ میں سورہا تھا میں نے دیکھا کہ میدان حشر ہے اور پل صراط پر لوگ گزر رہے ہیں۔
ایک شخص کو دیکھا کہ اس سے چلا نہیں جاتا لڑ کھڑاتا ہوا چل رہا ہے اس وقت ایک بچہ آیا اور ہاتھ پکڑ کر آنا فانا میں اس کو لے گیا میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے۔ ارشاد ہوا کہ اس کا بچہ ہے جو بچپن میں مر گیا تھا۔ یہاں اس کا رہبر ہو گیا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور مجھے خیال آیا کہ میں اس فضیلت سے محروم نہ رہوں۔ شاید بچہ ہی میری نجات کا باعث ہو جائے اس لیے میں نے نکاح کیا تھا اور میرا امقصود حاصل ہو گیا ہے۔بتلائیے ! اب بھی کوئی ایسا ہے کہ بچہ کے مرنے کو مقصود کا حاصل ہونا سمجھتا ہو تو اب اگر کسی کا کوئی بچہ مرجاتا ہے تو پیٹ پھاڑ پھاڑ کر مر رہتے ہیں۔ یہ اہل اللہ ہی کی ہمت ہے۔ پس اگر اولا د مرکز یا زندہ رہ کر آخرت کا ذخیرہ ہو تو ایسی اولاد تو بڑی نعمت ہے ورنہ وبال جان ہے۔
حضرت خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچہ کو قتل کر دیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے یہ کیا کیا کہ ایک بے گناہ بچہ کو مارڈالا۔ اول تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھنے کی یہ شرط طے کر لی تھی کہ میرے کسی فعل پر اعتراض نہ کرنا اس لیے انہوں نے فرمایا کہ میں نے تم سے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ تم سے صبر نہ ہو سکے گا۔
اس کے بعد اس واقعہ کی یہ حکمت بیان فرمائی کہ اس لڑکے کے والدین مومنین اور یہ لڑکا بڑا ہوا کر کافر ہوتا اور اس کی محبت میں اس کے ماں باپ بھی کافر ہو جاتے ۔ اس لیے ارادہ الہی یہ ہوا کہ اس کا پہلے ہی کام تمام کر دیا جائے اور اس کے بدلہ نیک اولا دان کو ملے۔ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جو بچے بچپن میں مرجاتے ہیں ان کا مر جاتا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اسی واسطے جو دیندار ہیں ان کو اولاد کے مرجانے کا تم تو ہوتا ہے لیکن پریشان نہیں ہوتے جو شخص خدا تعالی کو حکیم سمجھے گاوہ کسی واقعہ سے کبھی پریشان نہ ہوگا
۔ ہاں جس کی اس پر نظر نہیں اس پر گر کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ مثلا کوئی بچہ مر جاتا ہے تو اس کو بڑا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے کہ اگر زندہ رہتا توایسا ہوتا دل کے اندر سے شعلے اٹھتے ہیں ارمان آتے ہیں حسرتیں ہوتی ہیں کہ ہائے! ایسی لیاقت کا تھا ایس تھا ایسا ہوجاتا۔ صاحبو! تم کو کیا خبر ہے کہ وہ کیسا ہوتا۔ غنیمت سمجھو اس میں مصلحت تھی ممکن ہے کہ بڑا ہوکر کافر ہوتا اورتم کو بھی کافر بنا دیتا۔ اب لوگ تمنا کرتے ہیں اولاد کی یاد رکھو! جس طرح اولاد ہونا نعمت ہے اس طرح نہ ہوتا بھی نعمت ہے بلکہ جس کے نہ ہوئی ہویا ہوکر مرگئی ہو اس کو اور بھی زیادہ شکر کرنا چاہیے۔
For the English translation: